Majlis e Fiqhi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ،وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلىٰ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسلِينَ وعَلىٰ آلِه وَأَصْحَابِه وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَى يَوْمِالدِّينِ۔ أما بَعدُ!

:تمہید

امت مسلمہ منصوص مسائل اور نصوص میں بیان کردہ عمومی ہدایات کی پابند ہے؛البتہ جو غیر منصوص مسائل ہیں ان میں ہر دور میں مجتہدین اجتہاد کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں، اورامت کے عام افراد جن میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے یا وہ علماء جو منصب اجتہاد پر فائز نہیں، مجتہدین کی آرا پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرتے ہیں اور فتوی دیتےہیں،اجتہاد کی خصوص وعموم کے اعتبار سے دو صورتیں ہیں:
(۱) انفرادی اجتہاد، یعنی کسی مجتہد فقیہ کی جانب سے غیر منصوص مسائل کو منصوص مسائل پر قیاس کرنے کا عمل یا شریعت کی دلائل کلیہ اور فقہ اسلامی کے اصول وقواعد کی روشنی میں کسی پیش آمدہ مسئلہ میں احکام شریعت کی تعیین وتوضیح ،ترجیح وتصحیح اور تہذیب وتنقیح کی سعی جمیل۔
(۲) اجتماعی اجتہاد، یعنی مفتیان کرام اور ارباب افتاء وقضاء کی جانب سے اجتماعی طور پر فریضۂ اجتہاد کی انجام دہی۔
ان دونوں کے لئے دلائل موجود ہیں، اور امت میں دونوں طرح کی مثالیں ملتی ہیں،زیر نظر تحریر کا مقصد اسی دوسرے اجتہاد کے خط وخال کو نمایاں کرنا ہے، جس کی مثالوں میں سب سے پہلے حضرات خلفاء راشدین کے طرز عمل کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی نو پیش آمدہ مسئلہ میں صحابہ کرام میں سے اصحاب ِعلم وفضل کو جمع کرکے اجتماعی رائے حاصل کرتے، ایسے مسائل میں صحابہ کرام اجتماعی طورپر غور وفکر کے بعد جس نتیجہ پر پہنچے ان کا بڑا حصہ آج اجماع صحابہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، ایسے ہی دور تابعین میں مدینہ منورہ کے سات جلیل القدر فقہاء سعید بن المسیب، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، عبید اللہ بن عبداللہ، ابو بکر بن عبد الرحمٰن، خارجہ بن زید، سلیمان بن یسار اور دیگرفقہاء کی مشاورتی کونسل، نیز امام اعظم ابو حنیفہ کی مجلس علمی، جس سے ان کے جلیل القدر تلامذہ اور علماء وفقہاءکی بڑی تعداد منسلک تھی، اور بعد کے فقہاء کےلئے اجتماعی اجتہاد اور بحث و تحقیق کے لئے ایک نمایاں مثال سمجھی جاتی ہے، اسی طرح خلافت عثمانیہ کے دور کی مجلس علمی جس سے ’’مجلۂ احکام عدلیہ ‘‘جیسا عظیم فقہی مجموعہ تیار ہوا،جس کی حیثیت شہری قانون کی تھی، ایسے ہی حضرت اورنگ زیب عالمگیرکے دور میں ’’فتاوی ہندیہ‘‘ جیسا فقہ حنفی کی جزئیات کا جامع لب لباب بھی ایسی ہی ایک مجلس علمی کا کارنامہ ہے۔
چودھویں صدی ہجری میں جدید فقہی مسائل پر اجتماعی غور وخوض کے لیے مستقل اداروں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا،اورنئے مسائل پر ریسرچ کی ایک نئی تحریک پیدا ہوئی،جن میں عالمی سطح پر’’مجمع البحوث الإسلامیة‘‘جامع ازہر،’’رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تحت ’’المجمع الفقہي الإسلامي‘‘،اوآئی سی کے تحت’’مجمع الفقہ الإسلامي الدولي‘‘، ’’مجمع الفقہ الإسلامي‘‘سوڈان، یورپ میں ’’المجلس الأوربي للإفتاء والبحوث‘‘، امریکہ میں’’مجمع فقہاء الشریعة‘‘ وغیرہ کو زیادہ شہرت ملی،بھارت میں’، ادارہ مباحث فقہیہ ،جمعیۃ العلماء، اور فقہ اکیڈمی انڈیا ’ مجلس تحقیقات شرعیہ،ندوۃ العلماء،لکھنؤ‘‘اجتماعی اجتہاد کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
ایسی اجتماعی محنتوں کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو سیدنا ؓعلی سے منقول ہے، حضرت علی فرماتے ہیں :
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّهِ! إِنْ نَزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَيْسَ فِيهِ بَيَانٌ: أَمْرٌ وَلَا نَهْيٌ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ، وَلَا تُمْضُوا فِيهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ.(المعجم الاوسط: ۱۶۱۸)
ان نبوی ہدایات اور خلفائے راشدین کی عملی سنت سے اس امر کی تائیدہوتی ہے کہ ہر دور میں پیش آمدہ نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہادی عمل کو منظم، اجتماعی اور شورائی بنیادوں پر جاری رکھا جائے؛ چنانچہ عصرِ حاضر میں یہ ذمہ داری بالخصوص اہلِ علم اورزمانہ شناس فقہاء پر عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کا ایسا فعال نظام قائم کریں جو امت کو معاصر چیلنجز کے تناظر میں شرعی رہنمائی فراہم کر سکے،اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ ایسے فقہی اجتہادات اور معتبر دینی فتاویٰ کو صرف علمی کاوش سمجھنا کافی نہیں، بلکہ ان پر عمل پیرا ہونا امتِ مسلمہ کے افراد کا شرعی فریضہ ہے، بالخصوص ایسے معاملات میں جہاں نصوص کا اطلاق براہِ راست ممکن نہ ہو، مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اہلِ حق علماء کی طرف رجوع کریں، ان کی تعبیرات و تشریحات کو ایک شرعی قانون سمجھ کر قبول کریں، اور ان کے اجماعی فیصلوں پر اعتماد و عمل کا رویہ اپنائیں، یہی رویہ امت کی فکری وحدت اور عملی استقامت کی ضمانت ہے۔
اجتماعی اجتہاد اور معاصر مسائل میں فقہی رہنمائی کے ضمن میں یہ امر نہایت اہم ہے کہ ہمارے اکابر علماء نے نہ صرف اس عمل کی ضرورت کو اجاگر کیا، بلکہ اس کے لیے ایک واضح علمی منہج بھی متعین فرمایا، جو کتاب و سنت، اصولِ فقہ اور شورائی نظام پر مبنی ہے، اس منہج کی عملی تطبیق کی ایک نمایاں مثال جمعیۃ علماء ہند کی گوناگوں خدمات کے جلو میں وہ کاوش بھی ہے جس کے تحت اس نے آزادی سے قبل اور بعد، امتِ مسلمہ کو درپیش نئے مسائل میں تحقیقی غور و فکر اور اجتماعی فقہی مباحث کے ذریعہ شرعی احکام کے استخراج کا ایک منظم سلسلہ قائم کیا، تاکہ امت کی شرعی رہنمائی مسلسل جاری رہے اور اجتہاد کا عمل زمانی تغیرات سے ہم آہنگ ہو کر ترقی پذیر رہے۔
آزادی سے قبل ایسی ہی محنتوں سے الحیلۃ الناجزہ بھی وجود میں آئی، جس میں حضرت تھانوی کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند کے اکابر بھی شریک رہے، پھر بعد میں ۱۹۷۰ء میں اس مقصد سے جمعیۃ علماء ہند نے ایک مستقل ادارہ ’’ادارۃ المباحث الفقہیہ ‘‘ کے نام سے قائم کیا اور سید الملت حضرت مولانا مفتی سید محمد میاں صاحب دیوبندی  اس کے نگراں مقرر ہوئے، اس ادارہ سے مولانا کی زندگی میں کافی اہم نئے مسائل پر کام ہوا، رؤیت ہلال جو دور جدید میں ذرائع ابلاغ کی نت نئی شکلوں کے وجود میں آنے کے بعد سے ایک نازک مسئلہ ہوگیاتھا ، حضرت مولانا نے اس موضوع پر جدید دور کےتقاضوں کے مطابق اہم اصول و ضوابط کے سلسلہ میں رہنمائی فرمائی،مولانا کی وفات کے بعد بھی کسی نہ کسی عنوان سے یہ سلسلہ جاری رہا ؛ تاآنکہ پہلے ۱۹۸۵ میں نفقۂ مطلقہ کے موضوع پر علماء کی ایک کانفرس اسی ادارہ سے منعقد ہوئی، اور پھر ۱۹۹۰ سے باقاعدگی سے اس کے فقہی سیمینار منعقد ہو رہے ہیں، جس میں ملک بھر سے اصحاب علم و تحقیق اور ارباب افتاء کی بہت بڑی تعداد منسلک ہے، جو نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غور وفکر کے بعد ملت کی رہنمائی کرتے ہیں۔
اسی طرح ’’اسلامک فقہ اکیڈمی ‘‘بھی اجتماعی غور وفکر کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے، جس سے ملک بھر کے مفتیانِ کرام و محققین کی بڑی جماعت مربوط ہے، ان سے بھی نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غور وفکر کے بعد ملت کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح دار العلوم ندوۃ العلماء کی جانب سے اسی نہج پر ایک ادارہ ’’مجلس تحقیقات شرعیہ ‘‘کا بھی ہے ،جس نے ملک میں اس جانب سب سے پہلے توجہ دی لیکن ابتدائی کچھ تجاویز کے بعد اس کی سرگرمیاں موقوف تھیں،اب اس ادارہ کی بھی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے،اور اس کے سالانہ سیمینار پابندی سے ہورہے ہیں۔یہ تمام ادارے اپنے اپنے دائرۂ کار اور منہج کے مطابق اجتماعی اجتہاد، فقہی تجزیے، اور علمی مشاورت کے میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، انہوں نے معاصر دنیا کے پیچیدہ مسائل میں امتِ مسلمہ کو ایسی رہنمائی فراہم کی ہے جو نصوصِ شرعیہ کی روح، فقہی اصولوں کی بنیاد، اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے، ان کی علمی کاوشوں اور اجتماعی فیصلوں سے نہ صرف اربابِ افتاء و قضاء مستفید ہو رہے ہیں، بلکہ عام مسلمانوں کو بھی دینی شعور، فکری اعتماد، اور عملی رہنمائی حاصل ہورہی ہے۔

: مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا: قیام، پس منظر اور مقصدِ تاسیس

عصرِ حاضر میں انسانی زندگی کے ہر شعبے میں تیزی سے تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں،سائنسی ترقی، معاشی نظام کی پیچیدگی، اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے دنیا کو ایک نئے انداز سے مرتب کر دیا ہے۔ ان تغیرات نے جہاں کئی آسانیاں پیدا کیں، وہیں بہت سے پیچیدہ اور نازک مسائل کو بھی جنم دیا ہے، جن کا حل محض جزوی یا انفرادی سطح پر ممکن نہیں رہا۔ایسے حالات میں فقہ اسلامی کا وہ پہلو جو اجتہاد سے متعلق ہے، بالخصوص اجتماعی اجتہاد، غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ دینی شعور رکھنے والے افراد اور معاشرے کے وہ طبقات جو شریعت کی روشنی میں زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں، ان کی طرف سے ہمیشہ یہ تقاضا سامنے آتا رہا ہے کہ نئے مسائل میں شریعت کی جامع، مدلل اور متوازن رہنمائی فراہم کی جائے۔ محض انفرادی آراء سے تسکین نہیں ہوتی، بلکہ اجتماعی غور و فکر اور جید اہل علم کی مشترکہ رائے ان کے لیے زیادہ باعثِ اعتماد ہوتی ہے۔اسی دینی و علمی تقاضے کے پیشِ نظر، اور وقت کی ناگزیر ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، تلنگانہ و آندھرا پردیش کے چند سنجیدہ، باشعور اور درد مند علماء اور مفتیانِ کرام نے ایک مستقل فقہی ادارے کی بنیاد رکھنے کا عزم کیا، جو صرف انفرادی فتاویٰ تک محدود نہ ہو بلکہ اجتماعی سطح پر فقہی رہنمائی کا منظم ذریعہ بنے۔ چنانچہ اواخر ۲۰۲۱؁ھ میں غور و مشورہ اور تیاری کے ابتدائی مراحل کے بعد، “مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا” کے نام سے اس ادارے کا قیام عمل میں آیا، اور دینی، تعلیمی اور تحقیقی مراکز سے وابستہ کئی ممتاز مفتیانِ کرام کی سرپرستی میں اس کا سفر باضابطہ طور پر شروع ہوا۔

:قیام کے اسباب اور مقاصدمجلس فقہی

تلنگانہ و آندھرا کے قیام کی پشت پر وہی فکری اور دینی محرکات کارفرما ہیں، جو اسلامی تاریخ میں اجتہاد اور فقہی ارتقاء کے محرک بنے۔ جب امت کو جدید مسائل کا سامنا ہوا، جب معاشرہ متغیر حالات سے دوچار ہوا، جب شریعت کی تعبیر و تطبیق میں نئے سوالات سامنے آئے کتب اہل علم نے شورائی نظام اور اجتماعی فقہی تحقیق کا راستہ اختیار کیا۔ مجلس فقہی اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے، جو عصری ضروریات کے مطابق امت کو فقہی رہنمائی فراہم کرنے کی سعی کر رہی ہے۔اس کے قیام کا اہم مقصد یہ ہے کہ:نوپیش آمدہ مسائل کا اجتماعی اجتہاد کی روشنی میں حل تلاش کیا جائے۔معاشرتی، طبی، اقتصادی، قانونی اور فکری میدانوں میں سامنے آنے والے نئے سوالات پر علمی و شرعی تجزیہ کیا جائے۔عوام و خواص کو ایسی رہنمائی فراہم کی جائے جو شریعت کے مزاج، دلائل اور فقہی اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔امت کو اجتہادی فکر سے جوڑ کر انحراف، افراط و تفریط اور بے سمتی سے بچایا جائے۔

:علمی، تربیتی اور تحقیقی پلیٹ فارم

مجلس صرف فقہی فتاویٰ کا ادارہ نہیں، بلکہ ایک ایسا علمی پلیٹ فارم ہے جہاں فکر و نظر کی تربیت، تحقیقی ذوق کی آبیاری، اور نَو وارد مفتیانِ کرام کی رہنمائی کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ مجلس کا ایک اہم ہدف یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں کام کرنے والے علماء اور مفتیان کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے، جہاں وہ نہ صرف اپنے تجربات اور تحقیقات کو دوسروں کے ساتھ شریک کریں، بلکہ نوجوان اہلِ علم کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بھی بنیں۔اس مجلس کے ذریعے ان شاء اللہ وہ ماحول تشکیل پائے گا، جہاں رجال سازی، علمی تبادلہ، منہجی رہنمائی اور فقہی تربیت کا عمل مسلسل جاری رہے۔

آئندہ فقہی اجتماع

سولہواں فقہی اجتماع

سابقہ فقہی اجتماعات

دسواں فقہی اجتماع بعنوان خرید و فروخت اور بروکری کی چند صورتیں

بارہواں فقہی اجتماع بعنوان بینک انٹرسٹ کے مصارف سے متعلق چند تحقیق طلب امور

چھٹا فقہی اجتماع بعنوان زیرو فائنانس اداروں کے واسطہ سے خریداری

نواں فقہی اجتماع بعنوان سونے چاندی کی خرید و فروخت کی مختلف صورتیں اور ان کا حکم

دسواں فقہی اجتماع بعنوان خرید و فروخت اور بروکری کی چند صورتیں

گیارہواں فقہی اجتماع بعنوان حضرت مہدی علیہ الرضوان سے متعلق چند سوالات

Contact Us
Scroll to Top