Majlis e Fiqhi

الحمدللہ رب العالمین،والصلوٰۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ واصحابہ ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔  اما بعد!
امت منصوص مسائل کی بیان کردہ ہدایات کی پابند ہے؛البتہ جو غیر منصوص مسائل ہیں ان میں مجتہدین اجتہاد کرتے ہیں، اور غیر مجتہد لوگ مجتہدین کی پیروی کرتے ہیں۔
پھر اجتہاد کی بھی دو صورتیں ہیں:
(۱) انفردای اجتہاد، یعنی کسی فقیہ کی جانب سے انفرادی طور پر اجتہادی عمل۔
(۲)اجتماعی اجتہاد، یعنی مجتہدین و فقہاء کی جماعت کی جانب سے اجتماعی طور پر اجتہادی عمل۔
دونوں کے لئے دلائل موجود ہیں، اور امت میں دونوں طرح کی مثالیں ہیں، دوسری صورت کی مثالوں میں مثلاً خلافت راشدہ میں حضرات خلفاء راشدین کا عمل کہ نئے پیش آمدہ مسئلہ میں وہ صحابہ کرام میں سے اصحاب علم کو جمع کرکے اجتماعی رائے حاصل کرتے۔ ایسے مسائل میں صحابہ کرام اجتماعی طورپر غور وفکر کے بعد جس نتیجہ پر پہنچے ان کی ایک اکثریت آج اجماع صحابہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایسے ہی دور تابعین میں فقہاء سبعہ کی مجلس، نیز امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس علمی، جس سے ہر فن کے ماہرین کی بڑی تعداد منسلک تھی، اور بعد کے فقہاء کےلئے اجتماعی اجتہاد اور بحث و تحقیق کے لئے ایک عظیم الشان مثال کے طور پر موجود ہے، اسی طرح خلافت عثمانیہ کے دور کی مجلس علمی جس سے ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ ‘‘جیسا عظیم مجموعہ تیار ہوا، ایسے ہی اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں فتاوی ہندیہ جیسا مجموعہ بھی ایسی ہی ایک مجلس علمی کا کارنامہ ہے، اور اِس وقت ملک میں ادارہ مباحث فقہیہ ، اور فقہ اکیڈمی اس کی مثالیں ہیں۔
ایسی اجتماعی محنتوں کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ نَزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَيْسَ فِيهِ بَيَانٌ: أَمْرٌ وَلَا نَهْيٌ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ، وَلَا تُمْضُوا فِيهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ.(المعجم الاوسط: ۱۶۱۸)۔
اس طرح کی نبوی ہدایات کی روشنی میں خود علماء کا فریضہ ہے کہ وہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غوروفکر اور اجتہاد کا سلسلہ قائم کریں اور جاری رکھیں۔ اور ان کاتقاضہ یہ بھی ہے کہ عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نئے پیش آمدہ مسائل میں علماء حق سے رجوع کرکے دینی رہنمائی حاصل کریں۔ نیز ان کے فیصلوں اور فتاویٰ پر عمل کریں یہ مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔
ہمارے اکابر علماء کرام نے ایسی محنتوں اور علمی مجالس کے لئے تحقیق اور غور فکر کا منہج کیا ہوگا اس کو بھی ہمارے لئے واضح فرمایا ہے، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا کہ جمعیۃ علماء ہند نے آزادی سے قبل اور بعد میں ملت کی جو ہمہ جہتی خدمات انجام دی ہیں ان میں سے ایک اہم ترین خدمت نئے پیش آمدہ مسائل میں تحقیق اور اجتماعی غور وفکر کے بعد مسائل مستنبط کرنے کے لئے فقہی اور علمی مجلس کے سلسلہ کو قائم کیا، تاکہ نئے مسائل میں امت کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رہے۔
آزادی سے قبل ایسی ہی محنتوں سے الحیلۃ الناجزہ بھی وجود میں آئی، جس میں حضرت تھانوی کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند کے اکابر بھی شریک رہے، پھر بعد میں ۱۹۷۰ء میں اس مقصد سے جمعیۃ علماء ہند نے ایک مستقل ادارہ ’’ادارة المباحث الفقہیہ ‘‘ کے نام سے قائم کیا اور سید الملت حضرت مولانا مفتی سید محمد میاں صاحب دیوبندی نور اللہ مرقدہ اس کے نگراں مقرر ہوئے، اس ادارہ سے مولانا کی حیات میں کافی اہم نئے مسائل پر کام ہوا، رؤیت ہلال جو دور جدید میں ذرائع ابلاغ کی نت نئی شکلوں کے وجود میں آنے کے بعد سے ایک نازک مسئلہ ہوتا چلاگیا ہے ، حضرت مولانا نے اس موضوع پر جدید دور کےتقاضوں کے مطابق اہم اصول و ضوابط کی غیر معمولی رہنمائی فرمائی، جو آج بھی اس موضوع پر مشعل راہ کاکام کرتے ہیں، مولانا کے وصال کے بعد بھی کسی نہ کسی عنوان سے یہ سلسلہ جاری رہا ، تاآنکہ پہلے ۱۹۸۵ میں نفقہ مطلقہ کے موضوع پر علماء کی ایک کانفرس اسی ادارہ سے منعقد ہوئی، اور پھر ۱۹۹۰ سے باقاعدگی سے اس کے فقہی سیمینار منعقد ہو رہے ہیں، جس میں ملک بھر سے اصحاب علم و تحقیق اور ارباب افتاء کی بہت بڑی تعداد منسلک ہے، جو نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غور وفکر کے بعد ملت کی رہنمائی کرتے ہیں، اسی طرح ’’اسلامک فقہ اکیڈمی ‘‘بھی اجتماعی غور وفکر کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے، جس سے ملک بھر کے مفتیانِ کرام و محققین کی بڑی جماعت جڑی ہوئی ہے، ان سے بھی نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غور وفکر کے بعد ملت کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح دار العلوم ندوۃ العلماء کی جانب سے اسی نہج پر ایک ادارہ ’’مجلس تحقیقات شرعیہ ‘‘کا بھی ہے ، یہ سب ادارے اپنی اپنی جگہ اجتماعی غور وفکر کی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں، او رامت کو ان سے غیر معمولی نفع حاصل ہو رہا ہے۔

اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ موجودہ دور میں سائنسی ، اقتصادی ، تکنیکی ترقیات  کا انقلاب برپاہونے، اور آئے دن نت نئے مسائل  کے ہجوم کی وجہ سے نئے مسائل میں اجتماعی غور و فکر کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے، نئے مسائل میں عوام وخواص خصوصا دینی رجحانات کا حامل طبقہ واضح شرعی رہنمائی ورہبری کا خواہاں ہوتا ہے، اس لئے بہت سے مسائل میں اجتماعی غور و فکر کی ضرورت مزید بڑھتی ہی جا رہی ہے،حدیث نبوی کے مطابق ایسے جدید مسائل میں اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ انفرادی رہنمائی کے مقابلہ میں اجتماعی رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کریں، اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر تلنگانہ و آندھرا کے چند فکر مند اہل علم و افتاء نے ’’مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا‘‘ کی بناء رکھی تاکہ اس میدان کے تقاضوں کو پورا کرنے میں حصہ لیں ، اور نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غور و فکر کے ذریعہ عوام الناس کی رہنمائی کی جائے۔ 

اسی کے ساتھ ایک اہم غرض یہ بھی ہے کہ فقہ و تحقیق کے میدان کے شہسواروں کے لئے تحقیق و اجتماعی غوو فکر کا اپنی بساط بھر ایک بااعتماد پلیٹ فارم فراہم کیاجائے،اور اس پلیٹ فارم کے ذریعہ سے علاقہ میں فقہ و تحقیق کے ماہرین کی تیاری اور تربیت کا دروازہ بھی کھل جائے، نوفارغ مفتیان کرام کو بھی ان مجالس میں شرکت کرکے محققین کے نہج کو جان کر تحقیق کا رخ ملے ، اہل علم کی اور تشنگان علم کی رہنمائی ہو ، اور رجال سازی کا اہم فریضہ بھی انجام پائے۔

الحمد للہ اواخر ۲۰۲۱ ءسے مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا کا سفر شروع ہوا، مجلس کی ابتدائی نشستوں کےبعد ۱۵؍ڈسمبر ۲۰۲۱ ءکو باقاعدہ مجلس کا پہلا فقہی اجتماع دار العلوم حیدرآباد (شیورام پلی ) میں منعقد ہوا، اور حال ہی میں مجلس کا بارہواں فقہی اجتماع ۱۲؍ستمبر ۲۰۲۴ ءکو منعقد ہواتھا،ان سیمیناروں میں دونوں ریاستوں کےعلاوہ مہاراشٹرا، کرناٹک کے مؤقر دار الافتاؤں کے مفتیانِ کرام شامل رہے، اور نہایت اہم موضوعات پر ملت کی رہنمائی کی، جس کو ملک کے اکابر علماءِ کرام نے سراہا اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ 

آئندہ فقہی اجتماع

تیرہواں فقہی اجتماع

سابقہ فقہی اجتماعات

نواں فقہی اجتماع بعنوان سونے چاندی کی خرید و فروخت کی مختلف صورتیں اور ان کا حکم

دسواں فقہی اجتماع بعنوان خرید و فروخت اور بروکری کی چند صورتیں

گیارہواں فقہی اجتماع بعنوان حضرت مہدی علیہ الرضوان سے متعلق چند سوالات

بارہواں فقہی اجتماع بعنوان بینک انٹرسٹ کے مصارف سے متعلق چند تحقیق طلب امور

Contact Us
Scroll to Top