طریقۂ کار
منہج اور طریقۂ کار
مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا نے معروف فقہی اداروں (جیسے ادارہ مباحث فقہیہ، فقہ اکیڈمی وغیرہ) کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک منظم، شورائی اور علمی منہج اختیار کیا ہے، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
(۱)پیش آمدہ مسائل پر اجتماعی غور و فکر کے ذریعہ تحقیقی و شرعی رہنمائی ۔
(۲)اصحابِ افتاء اور اہلِ علم کو مسائل کی طرف بروقت توجہ دلانا۔
(۳)نوجوان مفتیانِ کرام میں تحقیق و استنباط کا ذوق پیدا کرنا۔
(۴)اہلِ علم کی آراء، استدلالات اور تحقیقات کو یکجا کر کے امت کے سامنے پیش کرنا۔
(۵)ہر مسئلہ پر شریعت کے اصول، فقہی قواعد اور دینی مزاج کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرنا۔یہ منہج اس بات کی ضمانت ہے کہ مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا کی رہنمائی وقتی، سطحی یا غیر منہجی نہیں ہوگی بلکہ گہرے غور و خوض، اجتماعی فکر، علمی دیانت اور دینی بصیرت پر مبنی ہوگی۔
:سوالنامہ کی تیاری، جوابات کی وصولی اور تلخیص کا نظام
فقہی رہنمائی کا پہلا علمی مرحلہ ہمیشہ ان نئے اور پیچیدہ مسائل کی تعیین سے شروع ہوتا ہے، جو زمانۂ جدید کے بدلتے حالات میں مسلم معاشروں کو درپیش ہوتے ہیں اور جن میں واضح، مدلل اور قابلِ اعتماد شرعی رہنمائی کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔یہ مسائل صرف فقہی حلقوں تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں تجارت، طب، معیشت، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور معاشرت میں پیدا ہوتے ہیں۔ مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا نے ان مسائل کی تحقیقی و اجتہادی رہنمائی کے لیے ایک نہایت مربوط، باقاعدہ اور شورائی منہج اختیار کیا ہے، جس کا پہلا اہم مرحلہ سوالنامہ کی ترتیب و تیاری پر مشتمل ہے۔نئے مسائل مختلف ذرائع سے سامنے آتے ہیں، جن میں درج ذیل اہم ذرائع شامل ہیں،ریاست کے مختلف دار الافتاء میں آنے والے تازہ ترین استفتاء اور سوالات،زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اہلِ فکر و دانش کی جانب سے موصول ہونے والے علمی و شرعی استفسارات،دینی جامعات، مدارس اور تحقیقی اداروں کے اساتذہ و محققین کی طرف سے اٹھائے گئے اجتہادی سوالات ،مجلس فقہی کے سابقہ سیمیناروں میں شرکت کرنے والے جید مفتیانِ کرام اور اربابِ علم سے پوچھا گیا یہ سوال کہ وہ موجودہ زمانے میں کن مسائل کو اجتماعی غور و فکر کا مستحق تصور کرتے ہیں۔ابتدائی استقراء اور مجلس شوریٰ کی رائےجب مختلف ذرائع سے مسائل جمع کیے جاتے ہیں تو ان کا ابتدائی استقراء و تجزیہ کیا جاتا ہے، ان میں تکرار، جزئیات یا غیر ضروری موضوعات کو الگ کر کے ایک جامع اور مربوط فہرست تیار کی جاتی ہے۔ اس فہرست کو مجلس فقہی کی شوریٰ (ارکانِ مجلس فقہی) کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جو کہ مجلس کا اعلیٰ ترین علمی و مشاورتی ادارہ ہے۔شوریٰ کے ارکان اپنے علمی تجربات، شرعی بصیرت، اور عصری فہم کی روشنی میں ہر مسئلہ کی اہمیت، اجتہادی پیچیدگی اور اس کی معاشرتی ضرورت کو پرکھتے ہیں۔ اس موقع پر مسئلے کے انتخاب میں درج ذیل پہلوؤں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے:مسئلے کی نوعیت اور اس کی وسعت،اس کا اجتہادی تقاضا اور پیچیدگی کی سطح؛اس پر سابقہ علمی و فقہی کام کی مقدار یا قلت۔شوریٰ ان تمام نکات کے تناظر میں کسی ایک یا دو موضوعات کو منتخب کرتی ہے تاکہ آئندہ فقہی اجتماع کی بنیاد انہی پر رکھی جا سکے۔
:سوالنامہ
موضوع کی منظوری کے بعد مجلس فقہی کے تجربہ کار مفتیانِ کرام، محققین اور علمی منتظمین سوالنامہ کی ترتیب میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ سوالنامہ محض روایتی استفتائی انداز کا حامل نہیں ہوتا، بلکہ ایک جامع تحقیقی خاکہ ہوتا ہے، جس میںمسئلہ کے تمام ممکنہ پہلو،فقہی اصولی جہات ،مختلف اطلاقات و متعلقات،اور ممکنہ اشکالات و سوالات کو سلیقہ مندی سے سمویا جاتا ہے تاکہ ہر محقق اور صاحبِ افتاء اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچ کر مدلل رائے پیش کر سکے۔
:تکنیکی و جدید موضوعات میں ماہرین سے مشاورت
اگر زیرِ بحث مسئلہ کسی تکنیکی، طبی یا اقتصادی شعبہ سے متعلق ہوتومجلس فقہی صرف روایتی کتب و حوالہ جات پر انحصار نہیں کرتی، بلکہ متعلقہ فیلڈ کے ماہرین سے مشاورت کو بھی تحقیق کا جزوِ لازم بناتی ہے۔اس کے لیے خصوصی علمی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں، ماہرین سے اصطلاحات، سسٹمز اور پسِ منظر کو سمجھا جاتا ہے، مفروضات کی جانچ، اشکالات کی وضاحت اور حقائق کی بنیاد پر سوالنامہ کو مزید نکھاراجاتاہے۔سوالنامہ کی باریک بینی سے جانچ اور منظوری تیار شدہ سوالنامہ کو شوریٰ کے سامنے باریک بینی سے جانچا جاتا ہے۔ اس مرحلہ میں مندرجہ ذیل امور کا خصوصی لحاظ رکھا جاتا ہے،
سوالات کا اسلوب اور وضاحت،
استدلالی نکات کی جامعیت اور توازن،
اشکالات سے اجتناب اور غلط فہمیوں کا ازالہ،
سوالنامہ کی علمی افادیت و رہنمائی کی صلاحیت۔
شوریٰ کی منظوری کے بعد ہی سوالنامہ کو باضابطہ جاری کیا جاتا ہے۔مقالات و جوابات کی طلب اور رہنمائی منظور شدہ سوالنامہ ریاست تلنگانہ و آندھرا اور ہمسایہ ریاستوں کے معروف مفتیانِ کرام، اصحابِ تحقیق، اور اساتذۂ فقہ و حدیث کی خدمت میں ارسال کیا جاتا ہے۔ ان سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ مکمل فقہی مقالہ دلائلِ شرعیہ، نصوص اور فقہی اصولوں کی روشنی میںمدلل اور محقق انداز میںاس سوالنامہ پر تحریری جواب دیں،جواب دہندگان سے یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ وہ تحقیق میں سلفِ صالحین، ائمۂ مجتہدین اور معتمد فقہی ذخیرے کو پیشِ نظر رکھیں، آزادانہ رائے کے بجائے محتاط اجتہاد کو اختیار کریں، اور مقاصدِ شریعت کے پیشِ نظر یسر، آسانی، وسعت اور اعتدال کا پہلو غالب رکھیں۔
:جوابات کی وصولی اور تلخیص کا نظام
سوالنامہ کے ساتھ ہی جواب بھیجنے کی تاریخ بھی متعین کر دی جاتی ہے،مجلس کی منتظمہ کمیٹی مسلسل رابطہ میں رہ کر مفتیانِ کرام کو یاد دہانی کراتی ہے اور جوابات کی بروقت وصولی کو یقینی بناتی ہے، زیادہ تر جوابات کمپوز شدہ موصول ہوتے ہیں، بصورتِ دیگر منتظمہ کی جانب سے انہیں کمپوز کروایا جاتا ہے۔چونکہ یہ مقالات مفصل اور طویل ہوتے ہیں، اور سیمینار کے محدود وقت میں ان سب کا بعینہ مطالعہ ممکن نہیں ہوتا، اس لیے مجلس فقہی ایک ماہر مفتی یا محقق کو ان جوابات کی تلخیص کی ذمہ داری دیتی ہے۔
:تلخیص مقالات
شرکائے سیمینار کی علمی رہنما ئ کے لیےتلخیص کرنے والے عالم کو تمام جوابات فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہ ان میں موجود مختلف آراء، اختلافی نقطۂ ہائے نظر، استدلالات اور نتائج کو مختصر، جامع اور منہجی انداز میں مرتب کرتے ہیں، ہر مختلف رائے کو علیحدہ ذکر کیا جاتا ہے، اور جہاں ممکن ہو وہاں دلائل کا خلاصہ بھی درج کیا جاتا ہے،تلخیص میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کہ کسی اہم نکتہ، دلیل یا رائے کو نظر انداز نہ کیا جائے، اور تمام فقہی آراء شفاف انداز میں سیمینار میں پیش کی جا سکیں۔
:فقہی اجتماع کا منہجی و استقرائی نظا م
مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا کے تحت منعقد ہونے والے فقہی اجتماعات، محض رسمی نشستیں یا روایتی مباحث کا مجموعہ نہیں ہوتے، بلکہ یہ ایک مربوط، منظم اور تدریجی اجتہادی و استنباطی نظام کا عملی مظہر ہیں۔ ان مجالس میں نئے پیش آمدہ مسائل پر غور و فکر، استدلالی گفتگو، اور مدلل فیصلے منہجِ شورٰی اور علمی احتیاط کے ساتھ طے پاتے ہیں۔
:پیشگی تیاری اور علمی مراحل کی تر تیب فقہی
اجتماع سے قبل ایک منظم ترتیب سے علمی مراحل طے کیے جاتے ہیں،سب سے پہلے سوالنامہ کی تیاری اور تنقیح ہوتی ہے، جسے ماہر مفتیانِ کرام کی زیر نگرانی مرتب کیا جاتا ہے۔پھر اس سوالنامہ کو اہلِ افتاء اور اربابِ تحقیق تک پہنچایا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنی علمی و فقہی آراء پر مشتمل مقالات مجلس کو ارسال کریں۔موصولہ جوابات اور مدلل مقالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے، اور مجلس کی طرف سے ایک جامع تلخیص مرتب کی جاتی ہے۔
:فقہی اجتماع
ایک تحقیقی علمی ماحول میںمقررہ تاریخ پر مجلس کا فقہی اجتماع منعقد ہوتا ہے، جس میں ریاست کے مختلف علاقوں سے منتخب مفتیانِ کرام، محققین، اور دینی جامعات کے اساتذہ و اہلِ علم شریک ہوتے ہیں۔ اجتماع میں شریک تمام علماء کرام کی خدمت میں تلخیص شدہ مواد کو طباعتی فائل کی شکل میں فراہم کیا جاتا ہے۔اجلاس کی کاروائی کے دوران مجلس کے ذمہ داران یا معتمدین تلخیص کوپڑھ کر سناتے ہیں، تاکہ تمام شرکاء کو مختلف آراء، ان کے دلائل اور اجتہادی جہات سے یکساں آگاہی حاصل ہو۔
:مناقشہ و مذاکرہ
علمی اظہار اور فکری ارتقاءکے لیےتلخیص کی پیشکش کے بعد فقہی اجتماع کا سب سے نازک اور اہم مرحلہ علمی مناقشہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں:مختلف آراء کے حامل علماء اور مقالہ نگار حضرات باہم گفتگو، سوال و جواب، تنقید و تحلیل، اور استدلال و شواہد کے ذریعہ اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں؛ہر شریک کو برابر موقع دیا جاتا ہے تاکہ علمی خیالات و نتائج سامنے آ سکیں؛گفتگو وقار، شائستگی اور تحقیقی مزاج کے دائرے میں رہتی ہے، اور کوئی رائے محض رسمی اتفاق کی بنیاد پر قبول نہیں کی جاتی، بلکہ ہر بات کو دلیل، تحقیق، اور اصولی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔یہ مکالماتی مرحلہ اس بات کی علامت ہے کہ مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا اجتھاد دلیل پر مبنی اور شورائی بصیرت سے معمور فقہی فکر کی داعی ہے۔
:تجاویز و قرارات
شرعی رہنمائی کی علمی دستاویزمناقشہ کے بعد اگلا مرحلہ تجاویز و قرارات کی تدوین کا ہوتا ہے، جو نہایت حساس اور باریک بین عمل ہے۔ کیوں کہ یہی تجاویز آئندہ امت کی شرعی رہنمائی کے طور پر پیش کی جاتی ہیں؛علمی و فقہی حوالہ جات میں ذکر ہوتی ہیں؛اور تحقیقی مباحث کی بنیاد بنتی ہیں۔اس مقصد کے لیے مناقشہ میں شریک علماء میں سے منتخب کردہ ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے، جسے “کمیٹی برائے تدوینِ تجاویز” کہا جاتا ہے۔ یہ کمیٹی مناقشہ میں سامنے آنے والی تمام آراء،ان کے دلائل و اشارات،اصولی نکات،اور معاشرتی اثرات کو سامنے رکھ کر ہر شق کو دقیق، جامع اور فہم و حکمت سے آراستہ انداز میں تحریر کرتی ہے۔
:توثیق و تنقیح
علمی وفقہی اجتماع اور دیانت دار نہ اختلاف کے بعد تجاویز کو اجتماعی توثیق کے لیے مکمل اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے،تمام تجاویز کو شق وار پڑھ کر سنایا جاتا ہے،ہر شق پر آزادانہ گفتگو اور تنقیح کی گنجائش رکھی جاتی ہے،اگر کسی مقام پر ضرورت محسوس ہو تو دوبارہ مناقشہ کی راہ کھولی جاتی ہے،جب شرکاء کی اکثریت ان تجاویز پر متفق ہو جاتی ہے، تو انہیں مجلس کی متفقہ تجاویز کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جاتا ہے۔اگر کسی محقق یا فقیہ کو کسی شق پر علمی بنیاد پر اختلاف باقی رہے، اور وہ مدلل طور پر اپنی رائے پر قائم ہو، تو مجلس اس اختلاف کو نظر انداز نہیں کرتی، بلکہ علمی دیانت اور تنوعِ آراء کی بقاء کے لیے اسے نوٹ کی شکل میں تحریر کرتی ہے۔
:اجتماعی اجتہاد کا درخشاں نمونہ
یہ منہجی اور استقرائی نظام اس بات کی روشن دلیل ہے کہ مجلس فقہی تلنگانہ و آندھرا اپنے فقہی اجتماعات کو محض رسمی یا وقتی محنت نہیں سمجھتی، بلکہ اسےاجتماعی اجتہاد کا علمی اور عملی نمونہ ،اصولی شورائی استنباط کا مظہر،اور امت کے لیے زمانہ شناس شرعی رہنمائی کا معتبر ذریعہ بنانا چاہتی ہے۔یہ عمل نہ صرف شرعی بصیرت اور علمی رہنمائی کا ذریعہ ہے، بلکہ اہلِ علم کے مابین علمی تبادلہ، فکری اعتدال، اور باہمی احترام کو فروغ دینے کا ایک زندہ پلیٹ فارم بھی ہے۔